Sunday 1 March 2015

“Ja’ali Peer

“جعلی پیر کے کہنے پر چھ سالہ بچی کو زندہ دفن کردیا گیا” یہ سطر زمانہ جاہلیت کی کسی کتاب کی نہیں بلکہ وطن عزیز میں پچھلے ہفتے مختلف اخبارات میں چھپنے والی خبر ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ اس سانحہ پر نہ کوئی ایکشن لیاگیا نہ ہی(حسب عادت دکھاوے کے لیے ) کوئی نوٹس لیا گیا اورنہ ہی تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی۔

“جعلی پیر” ایک ایسی نحوست کا نام ہے جو ہمارے ملک کے ہر چھوٹے بڑے علاقے میں موجود ہے،گاؤں دیہات کے سادہ طبع لوگ اور شہر میں مختلف مسائل سے پریشان لوگ جب اپنے پریشانیوں سے تنگ آجاتے ہیں اوران کو ہر دنیوی حربہ ناکام ہوتا دیکھائی دیتا ہے تو بیچارے کسی اللہ والے کی تلاش میں نکلتے ہیں جو ان کو پریشانیوں کی قید سے آزاد کرے،اور واقعی اللہ کی طرف رجوع اور اللہ سے تعلق ہر مسئلہ کا یقینی حل ہے لیکن بعض خود غرض اس موقع کو غنیمت جانتے ہیں اور پریشان لوگوں کی بے بسی سے فائدہ اٹھا کر اپنے مکروہ مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں،اور دین کے نام پر اپنا کاروبار چمکاتے ہیں۔

ہمارے پسماندہ علاقوں میں بد قسمتی سے عشروں سے وڈیروں اور پیروں کی روایت چل رہی ہے،گاؤں کے ان پڑھ لوگ کسی کی فصیح زبان،لمبی داڑھی یا صوفیانہ لباس سے فورا متاثر ہو جاتے ہیں،اور پھر دین کے یہ سوداگر نابلد دیہاتیوں سے طرح طرح کے ظلم کرتے ہیں، پڑھائی اور شادی سے امتناع، اور قبروں کی عبادت سمیت مختلف مخل العقیدہ امور جبرا کراتے ہیں،اور حکم کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں زندہ دفن اور زندہ جلادینے جیسی سزاؤں سے گريز نہیں کرتے،اس کے علاوہ وڈیروں اور جعلی پیروں کے” نذرانہ اور صدقہ”کے نام پر پیسے کھا نے، اور مذہبی اور اخلاقی گراوٹ کے قصہ مشہور ہیں۔

یقینا جعلی پیروں کا مسئلہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور روز بروز اس کے “متاثرین” میں اضافہ ہورہا ہیں لیکن اب بھی اس مسئلہ پر قابو پانا ممکن ہے،اور چونکہ اس مسئلہ کی بنیادی وجہ جہالت ہے اس لیے اس مسئلہ کے خاتمہ کا سب آسان حل تعلیم کو عام کرنا ہے،بشرطیہ کہ وہ تعلیم ہماری ثقافت اور مذہبی اقدار پر اثر انداز نہ ہو۔




No comments:

Post a Comment