Monday 30 March 2015

کرکٹ کے سفید ہاتھی

کرکٹ کے سفید ہاتھی

_________________

By: Muhammad Tahseen

ورلڈ کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کی شرمناک کارکردگی کے بعد کرکٹ شائقین کو یہ امید تھی کہ شاید اب ٹیم اور مینجمینٹ کا احتساب ہوگا اور بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرکے ایک نئی سہی لیکن مضبوط ٹیم کی بنیاد رکھی جائے گی جو دو تین سال کے عرصے میں تجربہ حاصل کرکے پاکستان کو کرکٹ میں اس کا کھویا ہوا مقام دلوائے گئی- لیکن مجال ہے کہ کسی سے ذرا پوچھ گچھ بھی کی گئی ہو۔ الٹا انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہر کرنے والے کھلاڑی انتہائی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھ کر اپنی خراب کارکرگی کا دفاع کرتے اور تنقید کرنے والوں پر غصہ نکالتے نظر آرہے ہیں۔ احتساب اور پوچھ گچھ تو دور کی بات آج پھر کرکٹ بورڈ کے عجیب وغریب فیصلے سامنے آگئے ہیں۔

اظہر علی جو کہ پچھلے دو سال سے ون ڈے اسکواڈ سے آؤٹ تھے اور ورلڈ کپ ٹیم کا حصہ بھی نہیں تھے آج چیرمین پی سی بی نے ان کے لیے تعریفوں کے پُل باندھ دیے انہیں نا صرف ٹیم میں شامل کرلیا گیا بلکہ ون ڈے ٹیم کا کپتان بھی بنا دیا گیا۔ کرکٹ بوڑد نے ایک بار پھر وہ بات سچ ثابت کردکھائی کے یا تو آپ کو ٹیم میں شامل ہی نہیں کیا جائے گا اور اگر شامل کیا جائے گا تو کپتان بنا کر۔ مصباح الحق کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان برقرار رکھا گیا ہے۔ معذرت کے ساتھ چاہے مصباح الحق کی پرفارمنس کتنی ہی اچھی کیوں نہ چل رہی ہو آخر ہر کھلاڑی کی ریٹائرمنٹ کی ایک عمر ہوتی ہے جس کے بعد اس کو ازخود نئے ٹیلنٹ کے لیے جگہ خالی کردینی چاہیے لیکن دوسرے شعبہ کی طرح کرکٹ میں بھی یہی رجحان ہے کہ جب تک پیسے بنتے ہیں بناؤ حُب الوطنی گئی بھاڑ میں۔ بیشک مصباح الحق کی بہت خدمات ہیں لیکن کیا ان کی پرفارمنس سری لنکا کہ سنگا گارہ سے بہتر ہے جنہوں نے ورلڈ کپ کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ ورلڈ کپ میں جو سات میچ انھوں نے کھیلے اس میں سے چار میں سنچریاں سکور کیں لیکن انھیں احساس ہے کہ اب ان کی جگہ کسی نوجوان کرکٹر کو لینی چاہیے جو لانگ ٹرم میں ٹیم کے کام آسکے اس لیے انھوں نے شاندار فارم اور کارکردگی کے باوجود ریٹائرمنٹ لے لی۔ ان کی عمر بھی مصباح الحق سے کم ہے اور فٹنس اور کارکردگی مصباح الحق سے کہیں زیادہ بہتر۔

شاہد آفریدی کے پاس پتہ نہیں کون سی گیڈر سنگی ہے کہ وہ پچھلے ٢٠ سال سے مسلسل کھیلتے چلے آرہے ہیں بیس پچیس میچ کھیلنے کے بعد کہیں ایک میچ میں وہ چل جاتے ہیں اور پھر اسی بنیاد پر اگلے بیس پچیس میچ کھیل جاتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ ورلڈ کپ میں انتہائی مایوس کن پرفارمنس کے باوجود بھی وہ ٹی ٹونٹی ٹیم کے کپتان ہونگے۔ وہ ویسے تو بہت محبِ وطن بنتے ہیں لیکن ان کی حب الوطنی بھی سامنے ہے کے کسی طور بھی کرکٹ ٹیم کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ اب ساری توجہ اپنے بزنسس پر دیں کیونکہ کرکٹ میں تو شاید ان کی پرفارمنس اتنی اچھی نہ رہی ہو لیکن ماشااللہ ان کے کاروبار نے بہت ترقی کی ہے اور اب بوتیکس کے بعد ان کے ریسٹورنٹس کی برانچس بھی کھلنے لگی ہیں۔

اسی طرح سے ہارون الرشید کو ایک بار پھر سلیکشن کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ بھی کرکٹ بورڈ کا کوئی بہت ہی گہرا رشتہ ہے شاید کرکٹ بورڈ ان کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں کرکٹ بورڈ کا حصہ رہتے ہیں۔ اگر کچھ عرصہ کے لیے وہ باہر ہو بھی جائیں تو پھر کسی بڑے عہدے کے ساتھ انہیں دوبارہ شامل کرلیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ اتنا ہی اچھا کام کررہے ہوتے ہیں تو پھر انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا کیوں جاتا ہے اور اگر بری کارکردگی پر ہٹایا جاتا ہے تو پھر کس بنیاد پر دوبارہ شامل کیا جاتا ہے۔ اسی سالہ چیرمین بھی اپنے عہدے پر اسی طرح براجمان رہیں گے اور نہ ہی شدید تنقید کے باوجود کوئی نجم سیٹھی کا بال بیکا کرسکا وہ بھی بدستور اپنے فرائص نبھاتے رہیں گے۔ یہی حال کوچ وقار یونس کا بھی ہے ان سے بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور وہ بھی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔

کیا ہی بہتر ہوتا اگر کسی اچھے پروفیشنل کرکٹر کو چیرمین پی سی بی لگایا جاتا اور پھر ملک بھر میں ٹیلنٹ ہنٹ کا انعقاد کرکے تیس چالیس بہترین لڑکوں کا انتخاب کیا جاتا اور پھر بالنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ کے سپیشلسٹ کوچز ہائر کرکے ان کے ٹیلنٹ کو پالش کیا جاتا تاکہ اگلے ورلڈ کپ تک ایک اچھی ٹیم تیار ہوسکتی۔ لیکن شاید پاکستان کی کرکٹ کی قسمت میں ابھی بوڑھے سفید ہاتھی اور چلے ہوئے کارتوس ہی ہیں۔ مزید دو تین سال کھیلنے کے بعد جب یہ جبری ریٹائرڈ ہونگے تو پھر ورلڈ کپ سر پر ہوگا اور ہم پھر وہی پرانی کہانیاں سن رہے ہونگے کہ ہم ورلڈ کپ کی تیاری نہیں کرسکے اس لیے قوم زیادہ توقعات نہ رکھے۔

(محمد تحسین)




No comments:

Post a Comment