Wednesday 11 February 2015

خود کوتقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو

خود کوتقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو

______________________________

By: Muhammad Tahseen


یاد ہے چند روز قبل جے- آئی- ٹی کی رپورٹ منظرِعام پر آنے کے بعد ایم کیو ایم نے بھتہ خور اور بلدیہ فیکٹری میں سینکڑوں لوگوں کو زندہ جلانے والے بدبخت رضوان قریشی سے قطعی لاتعلقی کا اظہار کیا تھا؟ آج کاشف عباسی نے اپنے پروگرام میں ایم کیو ایم کی آفیشل ویب سائٹ سے رضوان قریشی کو ایم کیوایم کا کارکن ثابت کردیا جس کیگرفتاری پر ایم کیوایم نے اپنی ویب سائٹ پر پریس ریلیز جاری کی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وسیم اختر کوئی معقول جواب نہیں دے پایا اور بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ تشدد سے تو کچھ بھی کہلوایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سب سے زیادہ افسوسناک اور شرمناک کردار پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی ادا کررہی ہے جو وسیم اختر کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے اور ایم کیو ایم کو ڈیفینڈ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ کچھ اور نیوز چینلز ٹیون کرکے مزید ٹاک شوز دیکھیں تو کئی جگہ نون لیگ کے رہنما بیٹھ کر ایم کیوایم کا دفاع کررہے ہیں۔ اور آج تو ایم کیو ایم کے سب ہی بدزبان لیڈر بالکل وہی بولی بول رہے تھے جو پرویز رشید یا اس کی قماش کے دوسرے روٹی پرست لوگ بولتے ہیں۔


بات وہیں آکر رکتی ہے جو میں نے کل اپنے ایک آرٹیکل میں کہا تھا کہ دہشت گردی سمیت پاکستان کے ہر مسئلے کا حل پاکستان کے عوام کے پاس ہی ہے۔ ایم کیو ایم کی حقیقت سورج کی طرح عیاں ہونے کے باوجود بھی آج ہزاروں کی تعداد میں کراچی کے عوام اپنے ہی شہر کو تباہ و برباد کرنے والے اپنے ہی جیسے ہزاروں غریب لوگوں کو قتل کروانے والے، روشنیوں کے شہر کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والے شخص کی حمایت میں نکلے۔ بے شک یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن حقائق سے نظریں تو نہیں چرائی جاسکتی۔ ایم کیو ایم کراچی میں اپنی جڑیں جس حد تک پیوست کرچکی ہے میرے خیال میں کراچی کے مسئلے کا اب کوئی حل باقی نہیں رہا۔ اگر ملڑی آپریشن ہوتا ہے تو بہت زیادہ خون بہے گا کیونکہ سارا کراچی بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔ کراچی کے مسئلے کا حل صرف اور صرف کراچی کے عوام کے پاس ہے۔ کل وہ اپنےہی قاتلوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں تو کل ہی شہر میں امن آجائے گا۔


اسی طرح باقی ملک کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے دین کا نام استعمال کرکے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون بہانے والے بدبختوں کے حامی بھی ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ہم ہی میں سے ان کے فنانسرز ہیں، ہم ہی میں سے ان کو لوجسٹکس دینے والے ہیں، ہم ہی میں سے ان کے فیسیلیٹیٹرز ہیں۔ وہ لوگ بھی برابر کے مجرم ہیں جو کسی بھی صورت میں بلا عذر انسانی جان لینے کی توجیحات پیش کرتے ہیں، کھلے عام یا خاموشی سے دل کے کسی کونے میں ان قاتلوں کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔ اگر آج یہ لوگ ریاست پاکستان کے ساتھ وفادار ہو جائیں تو یقین مانیں سینکڑوں میل دور قبائلی علاقوں سے آکر یہ درندے ہمارے لوگوں، ہماری مساجد، ہماری امام بارگاہوں، ہمارے مزارات، ہمارے بازاروں اور مارکیٹوں کو تہہ تیغ نہیں کرسکتے۔


بہت افسوس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کے آج تک ہم نے اس ملک کو اپنا سمجھا ہی نہیں۔ جس کا جتنا بس چلا اور جس انداز میں چلا اس نے اس ملک کو تباہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ ستر سال پہلے جس نعرے پر چھ لاکھ لوگوں نے اپنی گردنیں کٹوا دی تھیں کہ پاکستان کا مطلب کیا آج اسی پاکستان میں یہ بحث چل رہی ہے کہ پاکستان ایک سیکولر سٹیٹ ہونا چاہیے یا اسلامک؟ کیا ہمیں احساس نہیں ہو رہا کہ اس بحث کے نتیجے میں وہ مُلا کامیاب ہو رہے ہیں جنہوں نے دین کے نام پر قتل و غارت گری کرکے ہمیں دین سے اتنا خوفزدہ کردیا ہے کہ ہم اپنے اسلامی تشخص پر شرم محسوس کررہے ہیں؟ یا اس بحث کے نتیجے میں این جی اوز زدہ وہ لبرل فاشسٹ کامیاب نہیں ہو رہے جو پاکستان میں بھی اولڈ ایج ہومز والا کلچر چاہتے ہیں؟ اگر سیکولر سٹیٹ ہی بننا تھا تو پھر متحدہ ہندوستان ہی میں رہنے میں کیا قباحت تھی؟ وہ بھی سکیولر سٹیٹ کہلواتا ہے۔ لیکن گجرات، کشمیر، بابری مسجد اور گولڈن ٹیمپل کو بھی فراموش مت کریں۔ آج مجھے وہ حدیث یاد آرہی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئے گا جب مسلمان خود کو مسلمان کہلوانے میں عار محسوس کریں گے۔


میں شاید آج کے دن تک کوئی پچاس سے زائد تحریریں لکھ چکا ہوں۔ میں کوئی پروفیشنل رائٹر تو نہیں اس لیے میری تحریریں بے ہنگم ضرور ہوتی ہیں لیکن یہ میرے دل کی آواز ہوتی ہے جو میں آپ سب کے ساتھ شیئر کرکے اپنے دل کی بھڑاس مثبت انداز میں نکالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن ٢٦٠ لوگوں کو زندہ جلادینے والے واقعہ پر بھی اپنی قوم کو تقسیم دیکھ کر میرا دل جتنا دکھی ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ آج لکھتے ہوئے میں بہت دل گرفتہ محسوس کررہا ہوں۔ جاتے جاتے میں آپ سب کے نام احمد فراز مرحوم کی ایک نظم کرنا چاہتا ہوں۔ جب میں اس نظم کو پڑھتا اور اس کی گہرائی کو محسوس کرتا ہوں تو مجھے احمد فراز ایک شاعر نہیں ایک مسیحا یا ایک ولی اللہ کے روپ میں نظر آتے ہیں جو اپنی قوم کی حالت کو دیکھتے ہوئے رو رہے ہیں۔ آپ بھی پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کیجئے گا۔


اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو

اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی


پھر اسی بندوق کی گولی ہے میری سمت کہ جو

اس سے پہلے بھی میری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی


پھر وہی آگ در آئی ہے میری گلیوں میں

پھر میرے صحن میں بارود کی بو پھیلی ہے


پھر سے تو کون ہے، میں کون کا آپس میں سوال

پھر وہی سوچ میانِ من و تو پھیلی ہے


اس سے پہلے بھی تو پیمان وفا ٹوٹے تھے

شیشہ دل کی طرح آئنہ جاں کی طرح


اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی

صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی طرح


نعرہ حب وطن مال تجارت کی طرح

جنس ارزاں کی طرح دین خدا کی باتیں


ضدی پائوں سے مستانہ روی روٹھ گئی

مرمریں ہاتھوں پہ جل بجھا انگار حنا


شبنمی آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا

شاخِ باز کیلئے زلف کا بادل رویا


اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم

نوک دشنہ سے کھنچی تھی میری مٹی پہ لکیر


آج ایسا نہیں ایسا نہیں ہونے دینا

اے میرے سوختہ جانو، میرے پیارے لوگو


اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی

میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو


کسی قاتل، کسی ظالم کسی غاصب کیلئے

خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو


اب تو جیسے بھی ہیں حالات ہمارے لوگو

خود کو تقسیم نہ کرنا، میرے پیارے لوگو


(محمد تحسین)


http://ift.tt/1MdbHeR




No comments:

Post a Comment