Monday, 16 March 2015

لاہور میں انسانوں کو زندہ جلائے جانے کی وجہ

لاہور میں انسانوں کو زندہ جلائے جانے کی وجہ

___________________________

By: Muhammad Tahseen


کل لاہور میں چرچ پر خودکش حملے کے بعد دو افراد کو مشکوک سمجھ کر انتہائی تشدد کانشانہ بنانے کے بعد زندہ جلا دیا گیا۔ کسی بھی نارمل انسان کے لیے یہ بات تصور میں لانا بھی مشکل ہے۔ اس بات کی جس حد تک بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ پولیس اورانتظامیہ بے بس نظر آئی۔ لاہور کی ستائیس ہزار کی پولیس نفری میں سے سترہ ہزار کی تعداد وی آئی پیز کی حفاظت میں مصروف ہے جبکہ باقی کی دس ہزار تقریبا ایک کروڑلوگوں کی “حفاظت” کررہی ہے۔ پاکستان میں اب یہ واقعات ہر دوسرے دن دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ اس واقعہ میں بھی یہی ہوا۔ اس طرح کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ کس حد تک زوال پذیرہوچکا ہے اور عدم برداشت کی عادت ہماری رگ رگ میں بس چکی ہے۔ لیکن کوئی بھی معاشرہ راتوں رات اس قدر تنزلی کا شکار نہیں ہوجاتا اس کے پیچھے بہت سے محرکات اور واقعات ہوتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کے قانون کو ہاتھ میں لینے یا موب جسٹس کے پیچھے بھی کچھ محرکات ہیں اور ان میں سب سے بڑا محرک ریاستی اداروں اور انصاف کے نظام پر عدم اعتماد ہے۔


پاکستان میں پچھے دس پندرہ سالوں میں تقریبا ایک لاکھ افراد کو دہشت گردی کے مختلف واقعات میں قتل کردیا۔ قتل ہونے والے لوگوں میں ہر مذہب، فرقے، رنگ، نسل اور قومیت کے لوگ شامل تھے لیکن پاکستان کا انصاف کا نظام دیکھیں کے قتل کی سزا جو کہ سزائےموت ہے عملا معطل تھی اور پھانسی پانے والے آٹھ ہزار سے زائد لوگ جیلوں میں قید تھے اور ان کی سزا پر عملدرآمد رکا ہوا تھا۔ جس معاشرے میں قتل کرنے والے کو یہ معلوم ہو کہ وہ قتل کرنے کے بعد بھی اسے سزا نہیں ملے گی تو پھر کوئی بھی قاتل کس ڈر سے قتل کرنے سے باز رہے گا۔ چلیں اللہ کا شکر ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد سزائےموت تو بحال کردی گئی۔ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ ریاست انہیں انصاف فراہم کردےگی تو کوئی بھی گروہ یا شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی جرآت نہ کرے۔


کچھ عرصہ پہلے لاہور ہی کی جوزف کالونی میں عیسائیوں کی ایک پوری بستی جلادی گئی تھی لیکن بعد میں کچھ پتہ نہیں چلا کہ ان لوگوں کو کوئی سزا ہوئی یا نہیں۔ اسی طرح گوجرہ میں عیسائیوں کا گاؤں نظرِ آتش کر دیا گیا تھا لیکن کسی کو سزا نہیں ملی اسی طرح حالیہ دنوں میں کوٹ رادھا کشن میں دو مسیحی میاں بیوی کو پیسوں کے لین دین پراینٹوں کی بھٹی میں جھونک دیا گیا تھا کئی مہینے ہونے کو آئے لیکن اب تک پتہ نہ چل سکا کہ ان لوگوں کو کیا سزا ہوئی۔ رمشہ مسیح کے واقعہ کو یاد کریں جس میں ایک گیارہ سال کی بچی پر قرآن پاک کی توہین کا الزام لگایا گیا۔ بعد میں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ راکھ میں قرآن پاک کے اوراق خود مسجد کے امام نے ڈالے تھے لیکن اس امام مسجد کو توہین قران پر کوئی سزا نہیں ہوئی جبکہ رمشہ مسیح ملک سے باہر ہیں کیونکہ اس ملک میں آتے ہی اسے قتل کردیا جائے گا۔


ماڈل ٹاؤن لاہور میں دن دیہاڑے سولہ لوگوں کو قتل کردیا گیا تھا لیکن انصاف ملناتو دور کی بات اس ملک میں مقتولین کی ورثاء کی ایف آئی آر تک نہیں کٹ سکی۔ ہزاروں لوگ لاہور سے مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے اور پھر جب صورتحال حکومت کے کنڑول سے باہر ہوگئ تو آرمی چیف سے مسئلہ حل کروانے کی درخواست کی گئی۔ آرمی چیف نے کہاکہ پہلے آپ ایف آئی آر تو کاٹیں اس کے بعد ہی کوئی بات آگے بڑھ سکے گی۔ یوں ہزاروں لوگوں کے سڑکوں پر آنے اور آرمی چیف کی مداخلت کے بعد ایف آئی آر کاٹی گئی۔ اس کےبعد حکومت نے اپنی ہی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کو دبا لیا کیونکہ اس میں انگلیاں حکومت ہی کی طرف اٹھ رہیں تھیں۔ ایک سال ہونے کو ہے اور ابھی تک ان لوگوںک و انصاف نہیں مل سکا اور واقعہ میں ملوث افسران کی تعیناتی ملک سے باہر کردی گئی۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ ان کے قاتل عدالتوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے باہر آرہےہیں تو پھر اس طرح کے واقعات کو روکا نہیں جاسکتا۔


اسی طرح کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں تین سو لوگوں کو زندہ جلادیا گیا اورسالہا سال بعد یہ پتہ چلا کے یہ حادثہ نہیں دہشتگردی تھی لیکن اس کے بعد بھی آج کل اس کیس کی عدالت میں سماعت کے دوران فیکٹری مالکان میڈیکل گراؤنڈز پر عدالت میں پیش نہیں ہورہے اور ہمارا قانون ہے کہ یہ تک نہیں پوچھ سکتا کہ سارے مالکان ایک ساتھ اتنے دنوں کے لیے بیمار کیسے ہوگئے۔ اس طرح شیعہ کمیونٹی ہے کہ مسلسل ان کا قتلِ عام جاری ہے۔ وہ ایک ساتھ کئی کئی سو جنازے لے کر شدید سردی میں سڑکوں پربیٹھے رہے لیکن ان کو ابھی تک کسی قسم کا تحفظ اور انصاف نہیں ملا۔ اندیشہ ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب وہ بھی کسی اور حادثے کے بعد قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں۔ یہی وجوہات ہیں کہ پاکستان میں شہریوں کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینےکے واقعات اب تواتر کے ساتھ ہونے لگیں ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ اول تو انصاف ملے گانہیں اور اگر خوش قسمتی سے مل بھی گیا تو وہ اس وقت زندہ نہیں ہونگے کیونکہ انصاف ملتے ملتے دہایاں گذر جاتی ہیں۔


آئندہ بھی لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے زبردستی یا طاقت کے زور پر نہیں روکا جاسکے گا۔ اس کے لیے انصاف کے نظام میں اصلاحات کرنی پڑیں گی۔ یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ وکیل کیا کرنا جج ہی خرید لیں۔ پیشہ ور گواہوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ امیر اور غریب کے لیے یکساں قانون لاگو کرنا ہوگا۔ انصاف کا حصول سستا اور آسان کرنا ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ اگر کبھی کسی واقعہ میں انصاف ہوا بھی ہو تو عوام تک اس کی خبر نہیں پہنچتی۔ مثال کے طور پرجیسے کوٹ رادھا کشن کا واقعہ تھا یا اب لاہور میں لوگوں کو زندہ جلائے جانے کاواقعہ ہے تو اس کے بعد انصاف کا نظام ایسا ہونا چاہیے کے روزانہ کی بنیاد پر ایسےکیسوں کی سماعت ہو اور پھر حکومت ہفتہ وار یا پھر پندرہ دن بعد میڈیا کے ذریعےعوام کو آگاہ کرے کے فُلاں کیس میں کس حد تک پیش رفت ہوچکی ہے، کتنے لوگ گرفتارہوئے ہیں اور کیس کس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس طرح جب لوگوں کو انصاف ہوتا ہوانظر آنے لگے گا تو لوگ قانون کی ہاتھ میں لینا خود ہی ترک کردیں گے۔


(محمد تحسین)




No comments:

Post a Comment