Wednesday, 25 February 2015

“ITTEHAD”

اج سے تقریبا چار سو سال قبل 1598ء میں کچھ انگریز تاجروں کی لنڈن میں میٹنگ ہوئی،میٹنگ کا مقصد مشرق کی طرف تجارتی سفر کا منصوبہ بنانا تھا،30.133 کا بجٹ اور آپس میں تجارتی اتفاق کے فیصلے پر میٹنگ کا اختتام ہوا؛یہ منصوبہ پوری طرح کامیاب نہ ہوسکا،اگلے سال تاجر ایک با پھر جمع ہوئے ، سفری بجٹ بڑھا کر 68.373 کردیا گیا اور منصوبے کی کامیابی یقینی بنانے کے لئے نئے بحری جھاز خریدنے کا فیصلہ کیا گیا،منصوبہ اس بار مکمل طور پرکامیاب ہوا، 1600ء میں ملکہ بریطانیہ کی طرف سے لائسنس کا اجرا کیا گیا اور اس تجارتی اتحاد کو east india company کا نام دیا گیا۔

یہ اس پلان کی ابتداء تھی جس کے نتیجے میں پورے ہندوستان پر بریطانیا قابض ہوا،90 سالہ دور حکومت میں بریطانیہ نے ظلم وستم اور قتل وغارت کی جو تاریخ رقم کی اس کا احصاء یہاں ممکن نہیں ہے ؛لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انگریزوں کی آمد کا مقصد صرف خون بہا کر اپنی انا کو تسکین پہچانا اور قدرتی وسائل کو لوٹنا تھا؟ ؟؟ حقیقت میں انگریزوں کا آمد ایک انتھائی وسیع منصوبہ بندی کا حصہ تھا جس کے نتیجے میں ہندوستان م کی ثقافت سیاست اور معیشت مکمل طور پر بدل گئی،مغلیہ دور کے مسلمانوں کی ثقافت مسخ ہوکر رہ گئی، ہم نے جینز پنٹ پھننے اور انگریزی بولنے کو عزت اور سربلندی کا معیار بنالیا،ہمارے نوجوان خالد بن ولید اور عمر بن عبدالعزیز کو چھوڑ کر ہٹلر اور منڈیلا کے گرویدہ ہوگئے،90 سالہ استعمار نےہم پر اتنے گہرے اثرات چھوڑے کہ اب بچوں کو بھی سنڈریلا اور red riding hood کی کھانیاں سنائے بغیر بہلانا مشکل ہو گیا،موسیقی اور غیر اخلاقی فلموں کو اتنا پھیلادیا کہ ہماری آنے والی نسلیں اخلاقی اور فکری طور پر مکمل اپاہج ہوجائے۔

اس کے علاوہ خطے کی جذباتی فطرت کو بھانپتے ہوئے ہمیں مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں میں بانٹ دیا،پورے ہندوستان پرا کیلے حکومت کرنے والے مسلمانوں کو شیعہ سنی ،وہابی ،دیوبندی، بریلوی ،خانقاہی ا،ہلحدیث، تبلیغی ،سلفی ،مدنی اور مختلف مسميات كے تحت بانٹ دیا تاکہ آپس ميں لڑائی جھگڑے اور فرقہ واریت کو فروغ ملے اور انگریز اپنا مفاد حاصل کرے۔

فرقہ واریت نے ہميں ذلت کی گھرائیوں تک پہچادیا ہےاور ہماری قوت کو کھوکھلا کر دیا ہے لیکن اس کا خاتمہ اب بھی ممکن ہے؛کچھ عشروں قبل امریکہ بھی سیا ہ،سفید کے تعصب کی آگ میں جل رہا تھا ،جبکہ آج امریکی صدر خود سیاہ فام ہے،دوسری جنگ عظیم میں فرانس اور جرمنی ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے،جبکہ آج سارے یورپی ممالک کاآپس میں مضبوط عسکری اور اقتصادی اتحاد ہے۔فرقہ واریت کے ناسور پر قابو پانے کے لیے پہلے ان مقررین اور خطباء کو لگام دینی ہو گی جن کی شعلہ بیانی سے پورے ملک ميں فساد کی آگ بھڑک جاتی ہے ،ایک مسلمان ہم وطن سے سیاسی اور مذہبی اختلاف کرتے ہوئے یہ لا زم ہے کہ اس کی ذاتی زندگی پر نکتہ چینی احتراز اور کافر،خائن اور غدار جیسے القابات دینے سے گریز کی جائے۔

افسوس کا مقام ہے کہ اکیسویں صدی ميں جہاں دنیا مریخ پر قدم رکھنے کا سوچ رہی ہے وہاں ہم اس مخمصے میں ہے کہ عاشوراء پر چھٹی ہوتی ہے تو عمر فاروق کی یوم شھادت پر کیوں نھيں؟؟ کتنا شرم کا مقام ہوتا ہے جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مسجد ميں صرف اس لیے داخل ہونے نھیں دیتا کیوں کہ اسکا تعلق دوسرے فرقے سے ہیں،جب تک یہ عادات رہيں گی ہم کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ اللہ کا ارشادہے ((ولا تنازعوا فتفشلوا)) “اور آپس ميں نزاع مت کرو ورنہ ناکام ہو جاؤگے”۔


أسامة الطاف

osamaaltaf98@hotmail.com




No comments:

Post a Comment